آبأوَجداد کا مذہب۔ 

Read in…       HINDI         ENGLISH

قُرآن ←ھِدایت ← ﷲ کی ھِدایت،  باب میں سوال نمبر۲ ۔  اگر خدا نے خود ہمیں یا ہمارےآبأوَجداد کو ھِدایت نہیں دی، اور ہم اپنے آبأوَجداد کے راستے پر چل رہے ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور؟

سوال نمبر ۲ کے جواب میں ﷲ فرماتا ہے کہ۔

اور کہتے ہیں اگر خدا چاہتا تو ہم اِن معبودؤں کو نہ پوجتے۔ [ﷲ سوال کرتا ہے کہ] کیا ہم نے ان کو یا اِن کے آبأوَجداد   کو اس قُرآن سے پہلے کسِی مُقدّس کتاب میں شِرک کرنے کا حُکم دِیا ہے کہ جِس سے یہ سند پکڑتے ہیں؟ [ﷲ جوابًا فرماتا ہے]۔ ان کو اس کا کچھ علم نہیں۔ یہ تو صرف اٹکلیں دوڑا رہے ہیں، بلکہ کہنے لگتے ہیں کہ ہم نے اپنے آبأوَجداد  کو ایک رستے پر پایا ہے اور ہم انہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔ (قُرآن-۴۳: ۲۰-۲۲)۔

 (دَراصِل) اِسی طرح کے سوال اِن کے اگلے آبأوَجدادنے بھی کِئے تھے۔ جبکہ پیغمبر اُن کے پاس ﷲ کا پیغام لیکر آۓ تھے۔  ﷲ فرماتا ہے ہم نے ہر جماعت (قوم) میں پیغمبر بھیجے اور پیغمبرؤں نے خُدا کی عبادت یعنی توحید کا پیغام دِیا۔ اور بُت پرستی سے روکا۔ تو اُن میں سے کُچھ لوگؤں کو، کہ جِنہونے ﷲ کی طرف رُجوع کِیا، ﷲ نے اُنہیں ھِدایت دی۔ ورنہ بیشتر لوگ گُمراہی پر قایم رہے۔ (قُرآن- ۱۶: ۳۵-۳۶)۔

اور قِیامت کے دِن جب کافِر کہینگے! کہ ہم کو خبر نہیں تھی ورنہ ہم بھی آپ کی ہی عِبادت کرتے۔ ﷲ فرمائیگا!  کیا تم پر یا تمہارے آبأوَجداد  پر ہم نے پیغمبر نہیں بھیجے تھے۔ مگر تم نے اُن کو جُھوٹا اور دیوانہ قرار دِیا۔ اور کہا کہ ہم نے اپنے آبأوَجداد کو ایک رستے پر پایا ہے اور ہم انہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔ اور جو دین تم کو دیکر بھیجا گیا ہے ہم اُس کو نہیں مانتے، سو اب تمہاری پوری سزا جہنُّم ہے۔  

کیونکہ شیطان ہمارے بُرے کامؤں کو خوبصورت کرکے دِکھاتا ہے۔ اور ہم ﷲ کے راستے کو چھوڑکر شیطان کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں۔ (قُرآن-۴۳:۳۷، ۱۶: ۶۳)۔

ہر فرد جانتا ہے کہ تھوڑا مُشکِل ضرور ہوگا مگر حق کا راستہ ہی سہی اور دائمی ہے۔ مگر پھر بھی انسان فِطرتًا بُرائی کا چھوٹا اور آسان راستہ اختیار کرتا ہے۔ اِس کے بعد ہماری آنے والی نسلیں اِسی آسان راستے کو چُنتی چلی جاتی ہیں، جیسا کہ ہم اپنے آبأوَجداد  کے راستے پر چلتے رہے ہیں۔ اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ہم سہی اور غلط سوچنا ہی نہیں چاہتے، بس ’لکّیر کے فقیر ‘ کی طرح آبأوَجداد کے راستے اختیار کر لیتے ہیں۔  

اور اِس سوچ کو مضبوط بنانے کے لِیے ہمارے درمیان معاشرے میں موجود مضبوط لوگ اور کم عِلم کاہنؤں کی شکل میں شیاطین موجود رہتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا مذہب صحیح ہے اور کون سا غلط؟

آئیے دنیا کے تین بڑے مذاہب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سناتن یا ہندو مذہب اور ان کے آبأوَجداد۔

آریہ سندھ کے راستے سے ہندوستان آئے تھے۔ زمانہ قدیم سے یہ راستہ فارس، مصر اور یروشلم کو جوڑتا رہا ہے۔ آریہ اپنے ساتھ ’’وید‘‘ لاۓ تھے۔ وہ سناتن دھرم کے   پیروکار تھے۔ جسے آج ہندو مذہب بھی کہا جاتا ہے۔ ویدؤں میں ’واحدہُ لا شریک‘ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اور آج بھی بت پرستی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ بت صرف ذہن کو مرکوز کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہندو مذہب میں بھی پانی کے سیلاب کی تفصیل ملتی ہے۔ جو نوح/منو سے جوڑتی ہے اور وید خدا کی طرف سے موصول ہونے والے نوح/منو کےصحیفے معلوم ہوتے ہیں۔ نبی یا اَوتار یہاں بھی آئے۔ جنہیں بعد میں خدا  مان لیا گیا۔

عیسائی اور اُن کے آبأوَجداد۔

میتھیو کی بائبل [جو سب سے زیادہ قابلِ اعتماد اور معروف ہے۔ وہ عیسٰی مسیح کے 12 شاگردوں (حواریؤں) میں سے ایک ہے۔ اور مانا جاتا ہے کہ  ہر وقت عیسٰی مسیح کے ساتھ  رہے] میں عیسٰی مسیح نے کہیں نہیں کہا کہ وہ خود خدا ہے یا خدا کے بیٹے ہیں۔ یہ نظریہ 315ء میں وجود میں آیا۔ 

ہاں! کیونکہ خدا ہی پالنے والا ہے اس احساس کے زِیرِ اثر حواریوں نے عیسٰی مسیح کو خدا کا بیٹا کہا (میتھیو کی انجیل۱۶:۱۶) ۔ اور  عیسٰی مسیح نے خود  دنیا کے تمام انسانوں کو خدا کا بیٹا کہا (میتھیو کی انجیل 5: 16، 6: 1، 7: 11،10: 29) ۔ اور جِنسی اعتبار سے عیسٰی مسیح نے اپنے آپ کو اِبنِ آدم ((میتھیو کی انجیل 9: 6، 8: 20، 12: 8، 16: 13) اور زمانے نے اِبنِ داؤدؑ  (میتھیو کی انجیل 9: 27، 10: 23، 15: 20،22: 31) کہا ہے۔

قرآن اور بائبل کے پرانے لٹریچر  کے مطابق سیلاب کے بعد جب کُفر  بہت بڑھ گیا۔ تو خدا نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے ابراہیمؑ اور ان کی اولاد کو منتخب فرمایا۔ یہاں تک کہ چارؤں مقدس کتابیں (قرآن، انجیل، تورات اور زبور) اور لاتعداد  صحیفے ابراہیمؑ اور ان کی اولاد پر نازل کِیے۔

خدا قرآن میں کہتا ہے کہ ’’ہم نے ہر قوم میں پیغمبر بھیجے‘‘ اِبراھیمؑ اور ان کے اولادؤں میں اُن کی اپنی  قوم کی رہنُمائی کے لِیۓ  نبی بنائے گئے اور اِن میں سے  دوسری قوموں کی رہنُمائی کے لِیۓ بھی بھیجا گیا۔ مثلاً یوسفؑ، مُحمّدؐ۔

خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں ہی اُن کی اولادؤں کی ہجرت شروع کر دی تھی۔ مثلاً إسحاقؑ کنعان میں تھے، اور اِسماعیلؑ نے مکہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ اسی طرح ہجرت کی روایت نسل بہ نسل جاری رہی۔ یعنی زیادہ تر  نبی ابراہیم علیہ السلام کی نَسب میں ہوئے۔

مطلب یہ ہے کہ ہر نبی یا رسول نے ’واحدہُ لا شریک‘  یعنی صرف ایک مذہب کا راستہ دکھایا۔ اور لوگوں نے اس کے جانے کے بعد اس کو خُدا مان لیا۔

اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ﷲ تعالیٰ نے جو مقدس کتابیں اور صحیفے انبیاء کے ذریعے لوگوں تک پہنچایںٔ، ان میں سیاست دانوں اور مذہب کے ٹھیکیداروں نے ملاوٹ کر دی۔ یا ان کو چھوڑکر انسان کی بنائی ہوئی دوسری کتابیں لے آۓ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے نسل در نسل اپنے اَبأوَجداد کے راستے پر چل کر اپنے مذہب کو برباد کر لِیا۔

مسلم اور اُن کے آبأوَجداد۔

اگر مسلمانوں کی بات کریں!

  • ﷲ نے قرآن میں قرآن کو سب سے بہترین  حدیث قرار دیا ہے۔(قُ-۳۹: ۲۳)۔ اور اس حدیث یعنی قرآن کو وحی کے مطابق ﷲ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا ہے۔
  • اس حدیث کو حضرت عمر ؓ نے اکٹھا کیا اور کتاب کی شکل دی۔
  • اس حدیث کی حفاظت کی ذمہ داری خود ﷲ نے اپنے ذمہ لی ہے۔(قُ-۱۵: ۹)۔
  • اس حدیث پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زندگی بسر کی۔ (قُ-۳۳: ۲۱)۔
  • ﷲ تعالیٰ اس حدیث کو اس کائنات کے مکمل علم کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔

اب آپ بتائیں؟ اس حدیث کو پڑھنے اور ماننے والے کتنے فیصد مسلمان جانتے ہیں کہ اس حدیث میں کیا لکھا ہے؟

میں کہتا ہوں! اربوں کے علاوہ بمشکل ۲ فیصد! یا اُس سے بھی کم۔

علمائے کرام جب تقریر کرتے ہیں تو انسانوں کی لِکھی ہوئی احادیث پر فخر سے بات کرتے ہیں۔ وہ قرآن کی بات نہیں کرتے!اگر قُرآن کی بات کرتے بھی ہیں تو انسانوں کی لِکھی ہوئی احادیث کا سہارا لیتے ہیں۔ کیسا وقت آگیا ہے کہ قرآن کو انسانوں کی لِکھی ہوئی احادیث پر منحصر کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہارے لیے قرآن کو آسان کر دیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔ اور ہم نے اِس کو سمجھانے کے لیے طرح-طرح سے بیان کیا ہے۔

ہر مسلمان (جو تھوڑی بہت سمجھ رکھتا ہے) جانتا ہے کہ آج کا مسلمان ہدایت (حق) کے راستے پر نہیں ہے۔ دوسروں پر الزام لگاتا ہے لیکن اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتا کہ کیا وہ خود قرآن کی  پیروی کر رہا ہے؟

میں آپ سے پوچھتا ہوں، قرآن کی پیروی کرنا تو دور کی بات ہے۔ کیا آپ کو عِلم ہے۔ کہ قرآن میں مسلمانوں کے لیے اس دنیا میں رہنے کے کیا قوانین ہیں؟

  • خاندان میں بچوں اور بیوی کے کیا حقوق ہیں؟
  • والدین کے کیا حقوق ہیں؟
  • رشتہ داروں، پڑوسیوں اور غریبوں کے کیا حقوق ہیں؟
  • وراثت میں کس کا کتنا حق ہے؟
  • تولنے اور ناپنے کے کیا اُصول ہیں؟
  • جرائم کے ارتکاب کی سزائیں کیا ہیں؟
  • ایک مسلمان کی شناخت کیا ہے؟
  • ایک مسلمان کیسے جان سکتا ہے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں؟
  • مسلمان بننے کے لیے! ایک مسلمان کو پہلے اخلاقیات سیکھنی چاہیے یا عبادت؟
  • کیا صرف عبادت کرنے سے مسلم بن سکتے ہے؟

خدا کی قسم! اگر آپ خود سے سوال پوچھیں گے؟  تو آپ کو جواب نہ ملے گا۔

ﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امّت کے لیے توریت، داؤد علیہ السلام کی امّت کے لیے زبور، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امّت کے لیے انجیل اور امّتِ محمدؐیہ کے لیے قرآن نازل فرمایا۔ لیکن جب-جب  قوموں نے اصل کتاب کو چھوڑکر انسانوں کی تخلیق کردہ کتابوں میں  دِلچسپی بڑھائی! تب-تب اُنہوں نے اپنے مذہب کو خراب کیا۔ اور ﷲ نے ناراض ہوکر اُنہیں عذاب میں گرفتار کر لِیا۔

عدالت کے دن جب اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے یہ لوگ رسول کی سفارش کی امید رکھتے ہونگے۔ تب  رسول محمّد صلی ﷲ علیہ وسلم کہینگے! “اے رب، اِنہونے قرآن چھوڑ دیا تھا” (یعنی یہ میری اُمّت نہیں ہے)۔

اب آپ بتائیں؟

  • کیا آج کا مسلم معاشرہ اپنے آبأوَجداد کی غلط راہ پر کامزن ہے یا نہیں؟
  • کیا ہم اس 1450 سال پرانے جاہِل دور میں ہیں یا نہیں؟
  • کیا ہم وہ قدیم قومیں نہیں بن گئے جن پر ﷲ نے عذاب نازل کیا؟
  • کیا ہم بھی اسی سزا کے مُستحِق نہیں؟
  • کیا دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم ان عزابؤں کی یاد نہیں دلاتے؟
  • غور فرماییٔں۔

جبکہ ﷲکو وہ لوگ پسند ہیں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰

جو حق کو جاننے اور پانے کی کوشِش کرتے ہیں اور ﷲ کی طرف رُجوع کرتے ہیں۔ (قُرآن-۲۹: ۶۹ اور۴۰: ۱۳)۔


رَّبِّ اَعُوۡذُ بِکَ مِنۡ ھَمَزٰتِ الشَّیٰطِیۡنِ ۙ وَاَعُوۡذُ بِکَ رَبِّ اَنۡ یَّحۡضُرُوۡن ؕ۔

بِسۡمِ اللّٰهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِۙ۔

آبأوَجداد  کا دین۔

وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ تَعَالَوۡا اِلٰى مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ وَاِلَى الرَّسُوۡلِ قَالُوۡا حَسۡبُنَا مَا وَجَدۡنَا عَلَيۡهِ اٰبَآءَنَا‌ ؕ اَوَلَوۡ كَانَ اٰبَآؤُهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ شَيۡــًٔـا وَّلَا يَهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿۱۰۴﴾۔

[Q-05:104]

اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے نازل فرمائی ہے اس کی اور رسول ﷲ کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ جس طریق پر ہم نے اپنے آبأوَجداد کو پایا ہے وہی ہمیں کافی ہے بھلے ہی ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ سیدھے رستے پر ہوں (تب بھی؟) ﴿۱۰۴﴾ ۔


وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمُ اتَّبِعُوۡا مَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ قَالُوۡا بَلۡ نَـتَّبِعُ مَآ اَلۡفَيۡنَا عَلَيۡهِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَلَوۡ كَانَ اٰبَآؤُهُمۡ لَا يَعۡقِلُوۡنَ شَيۡـًٔـا وَّلَا يَهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿۱۷۰﴾ ۔

[Q-02:170]

  اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو [کتاب] خدا نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں [نہیں] بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آبأوَجداد  کو پایا۔ بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اورنہ سیدھے رستے پر ہوں ﴿۱۷۰﴾۔

———————————

کافِر اور اُن کے حُسنِ اعمال ۔

وَمَثَلُ الَّذِيۡنَ کَفَرُوۡا كَمَثَلِ الَّذِىۡ يَنۡعِقُ بِمَا لَا يَسۡمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّنِدَآءً ؕ صُمٌّۢ بُكۡمٌ عُمۡـىٌ فَهُمۡ لَا يَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿۱۷۱﴾ ۔

[Q-02:171]

اور جن لوگوں نے کفر کیا۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اُسے (یعنی جانور کو) پُکارتا ہے جو شور مچانے کے سوا کچھ نہیں سنتا۔ یہ کافِر بہرے، گونگےاور اندھے ہیں۔ پس کُچھ نہیں سمجھتے ﴿۱۷۱﴾ ۔


وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُهُمۡ كَسَرَابٍۢ بِقِيۡعَةٍ يَّحۡسَبُهُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمۡ يَجِدۡهُ شَيۡــًٔـا وَّوَجَدَ اللّٰهَ عِنۡدَهٗ فَوَفّٰٮهُ حِسَابَهٗ‌ ؕ وَاللّٰهُ سَرِيۡعُ الۡحِسَابِ ۙ‏ ﴿۳۹﴾ ۔

[Q-24:39]

جن لوگوں نے کفر کیا ان کےحُسنِ اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے ریتیلے میدان میں پانی! کہ   پیاسا اسے پانی سمجھے، یہاں تک کہ جب اس کے پاس آئے تو وہ کچھ بھی نہ پائے۔ اور جو ﷲ کو اپنے پاس دیکھے، تو ﷲ اسے اس کا پورا پورا حساب چکا دے۔ اور خدا جلد حساب کرنے والا ہے ﴿۳۹﴾ ۔

[آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ﷲ پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے کافروں کے حُسنِ اعمال ﷲ کے نزدیک ضائع ہو جائیں گے]


اَوۡ كَظُلُمٰتٍ فِىۡ بَحۡرٍ لُّـجّـِىٍّ يَّغۡشٰٮهُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِهٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِهٖ سَحَابٌ‌ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُهَا فَوۡقَ بَعۡضٍؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ يَدَهٗ لَمۡ يَكَدۡ يَرٰٮهَا‌ؕ وَمَنۡ لَّمۡ يَجۡعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوۡرًا فَمَا لَهٗ مِنۡ نُّوۡرٍ‏ ﴿۴۰﴾ ۔

[Q-24:40]

یا (کافِروں کےحُسنِ اعمال کی مثال ایسی ہے) جیسے دریائے عمیق میں اندھیرے! جس پر لہر چڑھی چلی آتی ہو اور اس کے اوپر اور لہر (آرہی ہو) اور اس کے اوپر بادل ہو، غرض اندھیرے ہی اندھیرے ہوں، ایک پر ایک (چھایا ہوا) ۔ جب اندھیرؤں میں سہارے کے لیئے اپنا ہاتھ نکالے تو کچھ نہ سوجھ سکے۔ اور جس کو خدا روشنی نہ دے اس کو (کہیں بھی) روشنی نہیں مل سکتی ﴿۴۰﴾ ۔

[یعنی کافر کُفر وَ گمراہی کے اندھیروں میں گھرا ہوا رہتا ہے۔ اور یہ اندھیرا اسے ہدایت کی طرف آنے نہیں دیتا۔]


ذٰ لِكَ بِاَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا اتَّبَعُوا الۡبَاطِلَ وَاَنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الۡحَقَّ مِنۡ رَّبِّهِمۡ‌ؕ كَذٰلِكَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ اَمۡثَالَهُمۡ‏ ﴿۳﴾ ۔

[Q-47:03]

یہ (کافِروں کے حُسنِ اعمال کا برباد ہونا) اس لئے ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے جھوٹی بات کی پیروی کی۔ اور جو ایمان لائے (اُن کےحُسنِ اعمال کا پورا بدلا مِلیگا کیونکہ) وہ اپنے پروردگار کی طرف سے (دین) حق کے پیچھے چلے۔ اسی طرح خدا لوگوں سے ان کے حالات بیان فرماتا ہے ﴿۳﴾ ۔

ﷲ تعالٰی فرماتا ہے کہ قِیامت کے دِن کِسی کے ساتھ بے اِنصافی نہیں ہوگی۔  ہر فرد کو پورا-پورا بدلا مِلیگا۔ اِس لِیئے جب کافِرؤں کی باری آیئگی  توﷲ کہیگا۔ کہ پُکارو اپنے اُن شِرکأوں کو جِن کی تم عبادت کیا کرتے تھے کہ وہ تمہیں تمہارے حُسنِ اعمال کا بدلا دیں۔ اور شِرکأ کہینگے ہم اِن کو نہیں جانتے۔ یعنی مُلحِدوں اور کافِرؤں کے حُسنِ اعمال کا بدلا ﷲ تعالٰی کیونکر دیں جبکہ وہ ﷲ پر ایمان لاۓ ہی نہیں اور خود  پر  وَ  مومِنین  پر ظُلم کرتے رہے تو اب تمہاری پوری سَزا جہنُؐم ہے ۔

—————————

کیا خُدا کبھی بےحیائی کرنے کا حُکم دے سکتا ہے ۔

وَاِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَةً قَالُوۡا وَجَدۡنَا عَلَيۡهَاۤ اٰبَآءَنَا وَاللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا‌ ؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ‌ ؕ اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿۲۸﴾ ۔

[Q-07:28]

اور جب کوئی بےحیائی کا کام کرتے ہیں تب بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آبأوَجداد کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے اور خدا نے بھی ہم کو یہی حکم دیا ہے۔ کہہ دو خدا بےحیائی کے کام کرنے کا ہرگز حکم نہیں دیتا۔ بھلا تم خدا کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ﴿۲۸﴾ ۔


کافِر اور شیطان ایک دوسرے کے رفیق۔

وَقَالُوۡا لَوۡ شَآءَ الرَّحۡمٰنُ مَا عَبَدۡنٰهُمۡ‌ؕ مَا لَهُمۡ بِذٰلِكَ مِنۡ عِلۡمٍ‌ اِنۡ هُمۡ اِلَّا يَخۡرُصُوۡنَؕ‏ ﴿۲۰﴾ اَمۡ اٰتَيۡنٰهُمۡ كِتٰبًا مِّنۡ قَبۡلِهٖ فَهُمۡ بِهٖ مُسۡتَمۡسِكُوۡنَ‏ ﴿۲۱﴾ بَلۡ قَالُـوۡۤا اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰٓى اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓى اٰثٰرِهِمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿۲۲﴾ ۔

[Q-43:20-22]

اور کہتے ہیں اگر خدا چاہتا تو ہم ان [معبودؤں] کو نہ پوجتے۔ ان کو اس کا کچھ علم نہیں۔ یہ تو صرف اٹکلیں دوڑا رہے ہیں ﴿۲۰﴾ کیا ہم نے ان کو اس (قُرآن) سے پہلے کوئی ایسی مُقدّس کتاب دی تھی جو یہ اس سے سند پکڑتے ہیں ﴿۲۱﴾۔

یعنی قُرآن سے پہلے کی کِسی بھی مُقدّس کتاب میں ﷲ کے ساتھ کِسی کو شریک کرنے کی تعلیم نہیں دی گئی۔ جو یہ سند لا سکیں۔

 بلکہ کہنے لگتے ہیں کہ ہم نے اپنے آبأوَجداد کو ایک رستے پر پایا ہے اور ہم انہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں ﴿۲۲﴾ ۔


وَمَنۡ يَّعۡشُ عَنۡ ذِكۡرِ الرَّحۡمٰنِ نُقَيِّضۡ لَهٗ شَيۡطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِيۡنٌ‏ ﴿۳۶﴾ وَاِنَّهُمۡ لَيَصُدُّوۡنَهُمۡ عَنِ السَّبِيۡلِ وَيَحۡسَبُوۡنَ اَنَّهُمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿۳۷﴾ حَتّٰٓى اِذَا جَآءَنَا قَالَ يٰلَيۡتَ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَكَ بُعۡدَ الۡمَشۡرِقَيۡنِ فَبِئۡسَ الۡقَرِيۡنُ‏ ﴿۳۸﴾ ۔

[Q-43:36-38]

جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مُسلّط کر دیتے ہیں اور وہ اُس کا رفیق بن جاتا ہے ﴿۳۶﴾ یہ شیاطین ایسے لوگو ں کو راہ رأست پر آنے سے روکتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں ﴿۳۷﴾ آخِر کار جب یہ شخص ہمارے ہاں پہنچے گا تو اپنے شیطان سے کہے گا،’’کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق وَ مغرب کا فاصلہ ہوتا، تُو تو بد ترین ساتھی نکلا‘‘﴿۳۸﴾ ۔

—————————–

ﷲ ہر مذہب کا ہدف ہے۔

وَلَٮِٕنۡ سَاَلۡتَهُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ لَيَقُوۡلُنَّ خَلَقَهُنَّ الۡعَزِيۡزُ الۡعَلِيۡمُۙ‏ ﴿۹﴾۔

[Q-43:09]

اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ دیں گے کہ ان کو غالِب اور علم والے خُدا [جو اَکیلا ہے] نے پیدا کیا ہے ﴿۹﴾ ۔

—————————–

خُدا نے پیغمبر بھیجے! راہِ حق پاؤ یا آبأوَجداد کی طرح انجام۔

تَاللّٰهِ لَـقَدۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنۡ قَبۡلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيۡطٰنُ اَعۡمَالَهُمۡ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الۡيَوۡمَ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿۶۳﴾ ۔

[Q-16:63]

ﷲ فرماتا ہے! (اے محمّدؐ) ہم نے تم سے پہلی اُمّتوں کی طرف بھی پیغمبر بھیجے۔ (تاکہ لوگؤں کو واحدَہُ لاشریک کا پیغام سُناییں۔ مگر)  شیطان نے (وہاں کے لوگؤں کو) ان کے (بد) اعمال ان کو آراستہ (خوبصورت) کر دکھائے، تو آج بھی وہی ان کا دوست ہے، اور ان کے لیے عذاب  دردناک ہے ﴿۶۳﴾ ۔


وَكَذٰلِكَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ فِىۡ قَرۡيَةٍ مِّنۡ نَّذِيۡرٍ اِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوۡهَاۤ اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰٓى اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓى اٰثٰرِهِمۡ مُّقۡتَدُوۡنَ‏ ﴿۲۳﴾ قٰلَ اَوَلَوۡ جِئۡتُكُمۡ بِاَهۡدٰى مِمَّا وَجَدْتُّمۡ عَلَيۡهِ اٰبَآءَكُمۡ‌ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلۡـتُمۡ بِهٖ كٰفِرُوۡنَ‏ ﴿۲۴﴾ فَانْتَقَمۡنَا مِنۡهُمۡ‌ فَانْظُرۡ كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُكَذِّبِيۡنَ‏ ﴿۲۵﴾ ۔

[Q-43:23-25]

اور اسی طرح ہم نے تم سے پہلے کوئی ایسی بستی نہیں کہ جہاں ہدایت کرنے والا نہیں بھیجا ہو۔ مگر وہاں کے خوشحال لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے آبأوَجداد  کو ایک راہ پر پایا اور ہم قدم بقدم ان ہی کے پیچھے چلتے ہیں ﴿۲۳﴾۔

[آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر زمانے کے کافر اپنے اَبأوَجداد کی   پیروی کرتے ہوئے اپنے شرک اور توہم پر قائم رہے۔]

ہر پیغمبر نے کہا اگرچہ میں تمہارے پاس ایسا [دین] لاؤں کہ جس رستے پر تم نے اپنے آبأوَجداد کو پایا وہ اس سے کہیں سیدھا رستہ دکھاتا ہے کہنے لگے کہ جو [دین] تم دے کر بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے ﴿۲۴﴾   تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ﴿۲۵﴾ ۔


وَكَمۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ نَّبِىٍّ فِى الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿۶﴾ وَمَا يَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ نَّبِىٍّ اِلَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿۷﴾ فَاَهۡلَـكۡنَاۤ اَشَدَّ مِنۡهُمۡ بَطۡشًا وَّمَضٰى مَثَلُ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿۸﴾ ۔

[Q-43:6-8]

اور پہلے لوگوں میں بھی ہم نے بہت سے نبی بھیجے ہیں ﴿۶﴾ اور ان کے پاس ایسا کوئی نبی نہ آیا، کہ جس سے وہ تمسخر نہ کرتے تھے ﴿۷﴾ پھر ہم نے ان میں بڑے زور والوں کو ہلاک کر دیا او رپہلوں کی مثال گزرچکی ہے ﴿۸﴾۔

—————————

قُرآن اور کافِر کے درمیان حاںٔل حِجاب۔

وَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ جَعَلۡنَا بَيۡنَكَ وَبَيۡنَ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسۡتُوۡرًا ۙ‏ ﴿۴۵﴾ وَّجَعَلۡنَا عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ اَكِنَّةً اَنۡ يَّفۡقَهُوۡهُ وَفِىۡۤ اٰذَانِهِمۡ وَقۡرًا‌ ؕ وَاِذَا ذَكَرۡتَ رَبَّكَ فِى الۡقُرۡاٰنِ وَحۡدَهٗ وَلَّوۡا عَلٰٓى اَدۡبَارِهِمۡ نُفُوۡرًا‏ ﴿۴۶﴾ ۔

[Q-17:45-46]

اور جب قرآن پڑھا کرتے ہو تو ہم تم میں اور ان لوگوں میں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے حجاب پر حجاب کر دیتے ہیں ﴿۴۵﴾ اور ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ اسے سمجھ نہ سکیں اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کر دیتے ہیں۔ اور جب تم قرآن میں اپنے پروردگار واحدَہُ لاشریک کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے   مُنھ پھیر کر چل دیتے ہیں ﴿۴۶﴾ ۔

—————————

 بِلآخِیر ﷲ تعالیٰ فیصلہ سناتا ہے۔

اَفَاَنۡتَ تُسۡمِعُ الصُّمَّ اَوۡ تَهۡدِى الۡعُمۡىَ وَمَنۡ كَانَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۴۰﴾ فَاِمَّا نَذۡهَبَنَّ بِكَ فَاِنَّا مِنۡهُمۡ مُّنۡتَقِمُوۡنَۙ‏ ﴿۴۱﴾ اَوۡ نُرِيَنَّكَ الَّذِىۡ وَعَدۡنٰهُمۡ فَاِنَّا عَلَيۡهِمۡ مُّقۡتَدِرُوۡنَ‏ ﴿۴۲﴾ ۔

[Q-43:40-42]

اب کیا اے نبیؐ، تم بہروں کو سناؤ گے؟ یا اندھوں اور صریح گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو راہ دکھاؤ گے؟ ﴿۴۰﴾ ۔

[یعنی جو حق کو نہیں سنتا اور دل کا اندھا ہے آپؐ اس کو  سیدھا راستہ نہیں دکھاسکتے]

 اب تو ہمیں اِن کو سزا دینی ہے خواہ آپؐ کو دنیا سے اٹھا لیں ﴿۴۱﴾ یا آپؐ کو اِن کا وہ انجام دکھا دیں جس کا ہم نے اِن سے وعدہ کیا ہے، ہمیں اِن پر پوری قدرت حاصل ہے ﴿۴۲﴾ ۔

—————————

صِفاتِ خُدا ۔

بَدِيۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ اَنّٰى يَكُوۡنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمۡ تَكُنۡ لَّهٗ صَاحِبَةٌ‌ ؕ وَخَلَقَ كُلَّ شَىۡءٍ‌ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ‏ ﴿۱۰۱﴾ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمۡ‌ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‌ۚ خَالِقُ كُلِّ شَىۡءٍ فَاعۡبُدُوۡهُ ‌ۚ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ وَّكِيۡلٌ‏ ﴿۱۰۲﴾ لَا تُدۡرِكُهُ الۡاَبۡصَارُ ۚ وَهُوَ يُدۡرِكُ الۡاَبۡصَارَ‌ۚ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ‏ ﴿۱۰۳﴾ ۔

[Q-06:101-103]

وہ! آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (ہے) ۔ اس کے اولاد کہاں سے ہو! جب کہ اس کی بیوی ہی نہیں ۔ اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے ﴿۱۰۱﴾ ۔

[ﷲکوئی مخلوق نہیں جِسے اولاد اور   بیوی کی ضرورت ہوگی۔ وہ تو ایک نورانی قُوّت ہے۔]

 یہی (اوصاف رکھنے والا) خدا تمہارا پروردگار ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ! ہر  چیز کا پیداکرنے والا (ہے) تو اسی کی عبادت کرو۔ اور وہ ہر چیز کا نگراں ہے ﴿۱۰۲﴾ (وہ ایسا ہے کہ) آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں ہاں وہ خود سب کچھ دیکھ رہا ہے اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے ﴿۱۰۳﴾ ۔

[یعنی اس کائینات میں اُسے کوئی نہیں دیکھ سکتا]


اَللّٰهُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ‌ؕ مَثَلُ نُوۡرِهٖ كَمِشۡكٰوةٍ فِيۡهَا مِصۡبَاحٌ‌ ؕ الۡمِصۡبَاحُ فِىۡ زُجَاجَةٍ‌ ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوۡكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ زَيۡتُوۡنَةٍ لَّا شَرۡقِيَّةٍ وَّلَا غَرۡبِيَّةٍ ۙ يَّـكَادُ زَيۡتُهَا يُضِىۡٓءُ وَلَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡهُ نَارٌ‌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰى نُوۡرٍ‌ ؕ يَهۡدِى اللّٰهُ لِنُوۡرِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ‌ؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۙ‏ ﴿۳۵﴾۔

فِىۡ بُيُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَيُذۡكَرَ فِيۡهَا اسۡمُهٗۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيۡهَا بِالۡغُدُوِّ وَالۡاٰصَالِۙ‏ ﴿۳۶﴾  رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡهِيۡهِمۡ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيۡعٌ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيۡتَآءِ الزَّكٰوةِ‌ ۙ يَخَافُوۡنَ يَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِيۡهِ الۡقُلُوۡبُ وَالۡاَبۡصَارُۙ‏ ﴿۳۷﴾۔

[Q-24:35-37]

خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویہ ایک طاق ہے جس میں چراغ ہو، اور وہ چراغ ایک شیشے کے فانوس میں ہو۔ اور فانوس ایسا کہ گویہ چمکتا ہوا سِتارہ ہو، اس میں مبارک درخت زیتون کا تیل جلایا جاتا ہو، جو نہ مشرقی ہو اور نہ مغربی ہو، اس درخت کا تیل ایسا شفّاف ہے کہ قریب ہے کہ وہ از خود بھڑک کر روشن ہو جائے خواہ اسے آگ کا شعلے نے چُھوا بھی نہ ہو، نور پر نور ہے۔ ﷲ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ اور ﷲ لوگوں کو سمجھانے کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور ﷲ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ ﴿۳۵﴾۔

 یہ نور ان گھروں (مسجِدؤں) میں ہے کہ جن کو ﷲ نے بُلند کرنے کا حُکم دیا۔ اور ان میں ایسے لوگؤں کو صبح اور شام ﷲ کے نام کی تسبیح کرنے اور اس کا ذِکر کرنے کا حُکم دِیا۔  ﴿۳۶﴾ کہ جنہیں ﷲ کے ذکر اور نماز کے پڑھنے اور زکوٰة کے دینے سے سوداگری اور خرید وفروخت غافل نہیں کرتی اور جو اس دن سے ڈرتے ہیں کہ جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائینگی ﴿۳۷﴾ ۔


رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا فَاعۡبُدۡهُ وَاصۡطَبِرۡ لِـعِبَادَتِهٖ ‌ؕ هَلۡ تَعۡلَمُ لَهٗ سَمِيًّا‏ ﴿۶۵﴾ ۔

[Q-19:65]

وہ رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور اُن ساری چیزوں کا جو آسمان وَ   زمین کے درمیان ہیں پس تم اُس کے بندگی کرو اور اُسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو۔ کیا تمہارے علم میں کوئی ایسی ہستی ہے جو اس کی ہم پایہ ہو [بِلکُل نہیں] ﴿۶۵﴾۔


لَا تَجۡعَلۡ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَقۡعُدَ مَذۡمُوۡمًا مَّخۡذُوۡلًا‏ ﴿۲۲﴾ ۔

[Q-17:22]

تو ﷲکے ساتھ کوئی دوسرا معبود   نہ   بَناؤ، ورنہ تم ذلیل اور بے یارو مددگار بیٹھے رہ جاؤگے ﴿۲۲﴾ ۔

—————————-

 ﷲ نے اپنی پہچان کرانے کے لِیے مُقدّس کتابیں نازِل کی۔

وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡهُدٰى وَاَوۡرَثۡنَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ الۡكِتٰبَۙ‏ ﴿۵۳﴾ هُدًى وَّذِكۡرٰى لِاُولِى الۡاَلۡبَابِ‏ ﴿۵۴﴾ ۔

[Q-40:53-54]

اور ہم نے موسٰی کو ہدایت [کی کتاب] دی اور بنی اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنایا ﴿۵۳﴾ جوعقل والوں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے ﴿۵۴﴾ ۔


وَالۡكِتٰبِ الۡمُبِيۡنِ ﴿۲﴾ اِنَّا جَعَلۡنٰهُ قُرۡءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿۳﴾ وَاِنَّهٗ فِىۡۤ اُمِّ الۡكِتٰبِ لَدَيۡنَا لَعَلِىٌّ حَكِيۡمٌؕ‏ ﴿۴﴾ ۔

[Q-43:2-4]

قسم ہے اِس واضح کتاب کی ﴿۲﴾ کہ ہم نے اِسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے۔ تاکہ تم لوگ اِسے سمجھو ﴿۳﴾ اور دَر حقیقت یہ اُمُّ الکتاب (یعنی لوح محفوظ) میں محفوظ ہے، جو ہمارے ہاں بڑی بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز کتاب ہے ﴿۴﴾ ۔

اُمُّ الکتاب سے مُراد لوحِ محفوظ ہے۔ جس سے سبھی مُقدّس کتابیں الگ کرکے نازِل کی گئی ہیں۔ سورۃ واقعہ میں اِسے کِتابِ مقنون کہا گیا ہے۔ سورۃ بُروج میں اِسے لوحِ محفوظ کہا گیا ہے۔


Leave a Reply